یہ کہاوت نہیں حقیقت ہے کہ نیکی اور بدی ازل سے ابد تک رہے گی تاکہ یہ پتہ چلتا رہے کہ اچھائی اور برائی میں کیا فرق ہے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے سانحہ بلوچستان وقوع پذیر ہوا وہ سڑک جو سارا سال دن رات چلتی ہے اسی چلتی ٹریفک میں جعلی وردی پہن کر دہشت گرد کھڑے ہو جاتے ہیں اور بے گناہ افراد کا خون بہاتے ہیں دراصل اس سڑک پر چلنے والوں کو احترام ہے تو وردی کا ہے کہ سکیورٹی فورسز پولیس رینجرز قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے باوردی افسران واہلکاران ہمیشہ انہیں حفاظت فراہم کرتے ہیں جس کی بدولت ہر پاکستانی سکھ چین سے رات کو سوتا ہے اربوں روپے کے کاروبار سڑکوں پہ کرتا ہے اور تکیہ کیے ہوئے ہے کہ ہمارے یہ سیکورٹی کے افسران و اہلکار ہمارے لیے 24 گھنٹے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ائین پاکستان میں جتنے بھی ادارے وردی پرسن ہیں سکیورٹی کی خدمات سرانجام دیتے ہیں عسکری خدمات سرانجام دیتے ہیں صحت میں ہیں تعلیم میں ہیں رضاکار ہیں گاڑیوں کے ڈرائیورز ہیں ان سب کے لیے دنیا بھر کے دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی وردیاں مہیا کی گئی ہیں جنہیں پہن کر وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اسی قانون کے تحت ہی وہ وردی جو اس محکمہ میں کام کرنے والوں کو ملتی ہے جس کو زیب تن کیے ہوئے وہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں اس کے لیے ائین پاکستان میں بھی درج ہے کہ کوئی اس کا غلط استعمال کرے گا خواہ وہ متعلقہ اہلکار کیوں نہ ہو یا پھر کوئی پرایویٹ پرسن اس کو پہن کر کوئی جرم سرزد کرے گا تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے گی اس سے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ثابت ہونے پر وہ سزاوار ٹھہرائے گا لیکن چونکہ ہمارا عدالتی نظام اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ائین میں ترامیم کرتے کرتے ہم اتنے اگے چلے گئے ہیں کہ دنیا کی رینکنگ جس میں انصاف کا پیمانہ بنایا گیا ہے میں اس میں ہمارا 140واں نمبر ہے یہی وہ وجوہات ہے جس کا فائدہ شر پسند دہشت گرد اور معاشرے میں امن و امان میں خلل ڈالنے والے اٹھا رہے ہیں اور ان اداروں کی وردیاں پہن کر وہ سرکار پر چوراہوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں کبھی گاڑیاں لوٹ رہے ہیں کبھی کسی کو زخمی کر رہے ہیں کبھی مار رہے ہیں اور اکثر لوٹ مار کر رہے ہیں اس پر غور نہیں کیا گیا کہ ایک تو وہ یہ جرم سرزد کرتے ہیں دوسرا وہ وردی کے احترام کو بھی آہستہ آہستہ ختم کر رہے ہیں کہ کوئی بھی پہن لے اس کے لیے برسوں پہلے انگریز زمانے میں جو قانون ترتیب پائے تھے وہی چل رہے ہیں بدلتے زمانے میں اس کی ضرورت تھی کہ اسے مزید سخت بنایا جائے پہلے پہلے 50 سال قبل بہروپیے ہوتے تھے جو کسی قسم کی وردیاں پہن کر گداگری کرتے تھے لوگوں کو ہنسا کر عارضی ڈرا کر ان سے پیسے مانگتے تھے اور لوگ ہنسی خوشی انہیں کچھ نہ کچھ دے دیتے تھےدراصل ان کے اندر اس وردی کا احترام اور اطمینان تھا جو انہیں سکون دیتا تھا اسی کے بل بوتے پر اس بہروپے کو بھی گداگری کی شکل میں انعام کی شکل میں کچھ نہ کچھ دے دیا جاتا تھا چاہیے تھا ممبران اسمبلی کو کہ وہ قومی اسمبلی میں اب یہ بل پاس کرتے کہ کوئی بھی شخص قانون نافذ کرنے والوں کی وردی خاص طور پر اور دیگر تمام ادارے جو وردی استعمال کرتے ہیں ان کی وردی کوئی بھی شخص نہیں پہن سکے گا اگر کوئی پہنے گا اور پکڑا جائے گا تو اسے اتنے اتنے گریڈ کی سزا ملے گی یہ قانون پاس نہ ہوا کیونکہ یہ واقعات کبھی کبھی ہو رہے ہیں لیکن جب بھی ہوئے ہیں سنگین نوعیت کے ہوئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ جتنے بھی محکمے وردی استعمال کرتے ہیں خواہ وہ ٹرین ڈرائیور کیوں نہ ہو بس ڈرائیور کیوں نہ ہو اس وردی کا احترام اسی طرح ہے جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور اہلکاروں کی وردی کا ہے لفظ وردی ہر پاکستانی کے لیے قابل احترام عزت و تکریم کا باعث ہے جس کی وجہ سے ہی ان کے مال و زر چادر چار دیواری کو تحفظ حاصل ہے اور وہ سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں مٹھی بھر عناصر کو قابو کرنا ہمارے قابل محنتی نڈر افسران کے لیے معنی نہیں رکھتا کہ انہیں پکڑا نہ جا سکے اس کام میں جو سیاسی عنصر ہے اسے نکال باہر کیا جائے اور سخت سے سخت سزائیں تجویز کرتے ہوئے جو بھی کسی وردی کا احترام نہ کرے اسے بلا تفریق سزائیں دی جائیں کیونکہ جب تک وہ وردی پہننے والا اپنے وردی کے تحفظ کے لیے اس کا احترام نہیں کرا سکے گا پھر اس کمزوری کا فائدہ وہ لوگ جو ازل سے ابد تک نیکی بدی کے تسلسل میں ساتھ ساتھ چلنے ہیں اٹھاتے رہیں گے ان کی بیخ کنی ان کا خاتمہ ہمارے ان اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی اس طرح کا کیس سامنے ائے تو وہ سپیڈ ہی جسٹس میں لا کر جلد سے جلد ٹرائل کر کے اسے وہ گنہگار ہے تو سزا دے دی جائے تاکہ کوئی بھی دوسرا ایسا نہ کر سکے جہاں وہ وردی تیار ہوئی ہے وہاں تک پہنچا جائے کون ہے جو ہمارے امن کو تباہ کرنے کے لیے ایسا کام کر رہا ہے اس کا پیچھا کیا جائے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تاکہ کوئی جرات نہ کرے کہ وہ کسی بھی محکمے کی وردی تیار کرے گا مختص لوگ ہوں جنہیں لائسنس جاری کیا جائے ان پر مانیٹرنگ افسر تعینات کیے جائیں تاکہ وہ مقررہ تعداد سے زیادہ ایک بھی وردی تیار نہ کر سکے اسے یہ ارڈر ہے کہ اگر کوئی ڈریس خراب ہو گیا ہے کوئی وردی خراب ہو گئی ہے تو اس کی تلفی اس مانیٹرنگ افسر کے سامنے کی جائے کبھی نہیں سوچا گیا اج تک ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں میں بھی نہیں آیا کہ جہاں یہ وردیاں تیار ہوتی ہیں ان کی نگرانی کی گئی ہو کہ وہ مقرر تعداد میں تیار کر رہا ہے یا زیادہ یا جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انہیں چن کر سزا کیوں نہیں دی گئی انہیں بھی سخت سے سخت کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں کیونکہ وہ پہلے اس جرم کا شکار ہیں کہ اگر وہ یہ وردیاں تیار نہ کریں تو کوئی نہیں پہن سکتا پولیس کے رضاکار بھی بعض اوقات پولیس کی وردی پہن لیتے ہیں ان کے لیے بھی الگ وردی تیار کی جائے انہیں بھی نہ یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ وردی استعمال کریں جب ادارے اپنی اپنی صفیں درست کریں گے تو جرم کرنے والوں کو یہ کان پڑ جائے گا کہ اب انہیں سزا ملنے والی ہے پھر عوام میں بھرپور اگاہی دی جائے جہاں حکومت اپنے ٹکے کی مشہوری کے لیے اربوں روپے خرچ کرتی ہے اپنے ایک تصویر کے لیے اربوں روپے کے اشتہارات جاری کر دیے جاتے ہیں وہاں عوام کو بھی بتایا جائے کہ اگر اپ کسی کو وردی کا غلط استعمال دیکھتے ہوئے پائیں تو اس کی اطلاع دیں انہیں انعام دیا جائے گا اور اس کا غلط استعمال کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملے گی تب جا کر وردی کا احترام بھی ہوگا اور اس کا کوئی غلط استعمال نہیں کر سکے گا عوام بھی سکھ کے سانس لے گی